ٹیس پیڑو میں اٹھی اوہی مری جان گئی
ٹیس پیڑو میں اٹھی اوہی مری جان گئی
مت ستا مجھ کو دوگانا ترے قربان گئی
تجھ سے جب تک نہ ملی تھی مجھے کچھ دکھ ہی نہ تھا
ہاتھ ملتی ہوں بری بات کو کیوں مان گئی
جوں جوں پہنچی ہے چمک بندی کا دم رکتا ہے
اب مری جان گئی جان یہ میں جان گئی
میں ترے پاس دوگانا ابھی آئی تھی چلی
میرے گھر میں تو عبث کرنے کو طوفان گئی
زہر لگتی ہے مجھے یہ تری چتھل بازی
یاں ترے آنے سے باجی تجھے پہچان گئی
تیری رنگیںؔ سے کہیں آنکھ لڑی سچ کہہ دے
کچھ تو گھبرائی ہوئی پھرتی ہے اوسان گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |