پاتا نہیں جو لذت آہ سحر کو میں

پاتا نہیں جو لذت آہ سحر کو میں
by اصغر گونڈوی

پاتا نہیں جو لذت آہ سحر کو میں
پھر کیا کروں گا لے کے الٰہی اثر کو میں

آشوب گاہ حشر مجھے کیوں عجیب ہو
جب آج دیکھتا ہوں تری رہ گزر کو میں

ایسا بھی ایک جلوہ تھا اس میں چھپا ہوا
اس رخ پہ دیکھتا ہوں اب اپنی نظر کو میں

جینا بھی آ گیا مجھے مرنا بھی آ گیا
پہچاننے لگا ہوں تمہاری نظر کو میں

وہ شوخیوں سے جلوہ دکھا کر تو چل دیے
ان کی خبر کو جاؤں کہ اپنی خبر کو میں

آہوں نے میری خرمن ہستی جلا دیا
کیا منہ دکھاؤں گا تری برق نظر کو میں

باقی نہیں جو لذت بیداری فنا
پھر کیا کروں گا زندگی بے اثر کو میں

اصغرؔ مجھے جنوں نہیں لیکن یہ حال ہے
گھبرا رہا ہوں دیکھ کے دیوار و در کو میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse