پاس ادب مجھے انہیں شرم و حیا نہ ہو
پاس ادب مجھے انہیں شرم و حیا نہ ہو
نظارہ گاہ میں اثر ماسوا نہ ہو
مانا مری قبول نہیں ہے دعا نہ ہو
اتنا ہی ہو کہ اس پہ اثر غیر کا نہ ہو
کیوں کر کہوں کہ پاس انہیں غیر کا نہ ہو
جو غصے میں بھی کہتے ہیں تیرا برا نہ ہو
اس پردے میں تو کتنے گریبان چاک ہیں
وہ بے حجاب ہوں تو خدا جانے کیا نہ ہو
تکیے میں کیا رکھا ہے خط غیر کی طرح
دیکھوں تو میں نوشتۂ قسمت مرا نہ ہو
مل کر گلے وہ کرتے ہیں خنجر کی طرح کاٹ
اس پر بھی کہہ رہا ہوں کہ مجھ سے جدا نہ ہو
موسیٰ کا حال دیکھ کے دل کانپنے لگا
اب تو دعا ہے ان سے مرا سامنا نہ ہو
وہ بار بار میرا لپٹنا شب وصال
ان کا جھجک کے کہنا کوئی دیکھتا نہ ہو
بیدمؔ کی زندگی ہے اسی چھیڑ چھاڑ میں
ترک وفا کی طرح سے ترک جفا نہ ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |