پاس اس بت کے جو غیر آ کے کوئی بیٹھ گیا
پاس اس بت کے جو غیر آ کے کوئی بیٹھ گیا
درد اٹھا یا مرے جس میں کہ جی بیٹھ گیا
عشق مژگاں میں ہزاروں نے گلے کٹوائے
عید قرباں میں جو وہ لے کے چھری بیٹھ گیا
جب رقیب اس کو بتانے لگے ارکان نماز
تھام کر دل کبھی اٹھا میں کبھی بیٹھ گیا
اے جلا ساز کبھی پھر نہ صفائی ہوگی
زنگ آئینۂ دل میں جو ذرا بیٹھ گیا
دست و پا ہوتے ہیں ہر وار میں لاکھوں کے دو نیم
ہاتھ چورنگ پہ مشق اس نے جو کی بیٹھ گیا
چشمۂ گور وہ ہے اس سے نہ نکلا کوئی
اس کنوئیں میں جو گرا ڈوبتے ہی بیٹھ گیا
تھام کیوں کر نہیں لیتے ہیں وہ دل دیکھیں تو
تیر نالہ جو نشانے پہ کوئی بیٹھ گیا
پھوٹ بہتا جو یہ اے شادؔ تو بہتر ہوتا
پھر یہ ابھرے گا پھپھولا جو ابھی بیٹھ گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |