پانو میں قیس کے زنجیر بھلی لگتی ہے
پانو میں قیس کے زنجیر بھلی لگتی ہے
یوں ہی دیوانے کی تصویر بھلی لگتی ہے
اپنی کیا تجھ سے کہوں تو ہی کہہ اپنی مجھ سے
کہ مجھے تیری ہی تقریر بھلی لگتی ہے
خوش نما ہے ترے عارض پہ یہ خط یوں جس طرح
گرد قرآن کے تفسیر بھلی لگتی ہے
جب مرے خون میں ہوتی ہے وہ رنگیں قاتل
اس گھڑی کیا تری شمشیر بھلی لگتی ہے
ہوتی ہے عاشق و معشوق کی جس میں تصویر
اپنی آنکھوں میں وہ تعمیر بھلی لگتی ہے
میری تصویر کو غم ناک تو کھینچ اے مانی
شکل عشاق کی دلگیر بھلی لگتی ہے
مصحفیؔ باجے ہے نوبت تو در آصفؔ پر
کیا ہی آواز بم و زیر بھلی لگتی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |