پانی سیانے دیتے ہیں کیا پھونک پھونک کر
پانی سیانے دیتے ہیں کیا پھونک پھونک کر
دل سوز غم نے خاک کیا پھونک پھونک کر
چھڑکاؤ آب تیغ کا ہے کوئے یار میں
پاؤں اس زمیں پہ رکھئے ذرا پھونک پھونک کر
دیکھا نہ آنکھ بھر کے نظر کے خیال سے
لیتے ہیں ہم تو نام ترا پھونک پھونک کر
ہوگا نہ صاف جھوٹی ہوا خواہیوں سے دل
یوں دل کا کب غبار اڑا پھونک پھونک کر
باد نفس سے داغ دل سرد جل اٹھے
ہم نے جلا دیا ہے دیا پھونک پھونک کر
الٹا ہے کیا اس آہ شرربار کا اثر
دل ہی بجھا دیا ہے مرا پھونک پھونک کر
پیری میں آئے گی نہ کبھی طاقت شباب
اے پیر لاکھ پارے کو کھا پھونک پھونک کر
شیطاں کا دھوکا زاہد پر فن پہ کیوں نہ ہو
پیتا ہے چھاچھ دودھ جلا پھونک پھونک کر
آتش بیانئ لب کیفیؔ نے بزم میں
دشمن کے دل کو خاک کیا پھونک پھونک کر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |