پان کھا کر سرمہ کی تحریر پھر کھینچی تو کیا

پان کھا کر سرمہ کی تحریر پھر کھینچی تو کیا
by بہادر شاہ ظفر

پان کھا کر سرمہ کی تحریر پھر کھینچی تو کیا
جب مرا خوں ہو چکا شمشیر پھر کھینچی تو کیا

اے مہوس جب کہ زر تیرے نصیبوں میں نہیں
تو نے محنت بھی پئے اکسیر پھر کھینچی تو کیا

گر کھنچے سینہ سے ناوک روح تو قالب سے کھینچ
اے اجل جب کھنچ گیا وہ تیر پھر کھینچی تو کیا

کھینچتا تھا پاؤں میرا پہلے ہی زنجیر سے
اے جنوں تو نے مری زنجیر پھر کھینچی تو کیا

دار ہی پر اس نے کھینچا جب سر بازار عشق
لاش بھی میری پئے تشہیر پھر کھینچی تو کیا

کھینچ اب نالہ کوئی ایسا کہ ہو اس کو اثر
تو نے اے دل آہ پر تاثیر پھر کھینچی تو کیا

چاہیئے اس کا تصور ہی سے نقشہ کھینچنا
دیکھ کر تصویر کو تصویر پھر کھینچی تو کیا

کھینچ لے اول ہی سے دل کی عنان اختیار
تو نے گر اے عاشق دلگیر پھر کھینچی تو کیا

کیا ہوا آگے اٹھائے گر ظفرؔ احسان عقل
اور اگر اب منت تدبیر پھر کھینچی تو کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse