پان کی سرخی نہیں لب پر بت خوں خوار کے
پان کی سرخی نہیں لب پر بت خوں خوار کے
لگ گیا ہے خون عاشق منہ کو اس تلوار کے
خال عارض دیکھ لو حلقے میں زلف یار کے
مار مہرہ گر نہ دیکھا ہو دہن میں مار کے
انجم تاباں فلک پر جانتی ہے جس کو خلق
کچھ شرارے ہیں وہ میری آہ آتش بار کے
طوبی جنت سے اس کو کام کیا ہے حوروش
جو کہ ہیں آسودہ سائے میں تری دیوار کے
پوچھتے ہو حال کیا میرا قمار عشق میں
جھاڑ بیٹھا ہاتھ میں نقد دل و دیں ہار کے
یہ ہوئی تاثیر عشق کوہکن سے سنگ آب
اشک جاری اب تلک چشموں سے ہیں کہسار کے
ہے وہ بے وحدت کہ جو سمجھے ہے کفر و دیں میں فرق
رکھتی ہے تسبیح رشتہ تار سے زنار کے
وعدۂ دیدار جو ٹھہرا قیامت پر تو یاں
روز ہوتی ہے قیامت شوق میں دیدار کے
ہوشیاری ہے یہی کیجے ظفرؔ اس سے حذر
دیکھیے جس کو نشے میں بادۂ پندار کے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |