پرتو حسن کہیں انجمن افروز تو ہو
پرتو حسن کہیں انجمن افروز تو ہو
دل پر داغ مرا مایۂ صد سوز تو ہو
کم سے کم کوئی تو ساماں ترے آنے کا کروں
اطلس چرخ تو ہو بستر گل دوز تو ہو
رنگ پیراے چمن جوش میں کلیاں چٹکیں
کھول دے بند نقاب آج کہ نو روز تو ہو
دل میں پیوست نہ ہو جو وہ نظر ہی کیا ہے
تیر ترکش میں اگر ہو تو جگر دوز تو ہو
نہ سہی صحبت فردوس جہنم ہی سہی
محفل عیش نہ ہو انجمن سوز تو ہو
کیا نتیجہ ہے عزیزؔ ایسی جبیں سائی سے
بت کا سجدہ ہو مگر ناصیہ افروز تو ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |