پرتو نور بھی ہے جوہر تنویر بھی ہے

پرتو نور بھی ہے جوہر تنویر بھی ہے
by ناطق لکھنوی

پرتو نور بھی ہے جوہر تنویر بھی ہے
آئنہ بھی ہے مرا دل تری تصویر بھی ہے

زہر ہے سب کے لئے زہر محبت لیکن
اگر آ جائے موافق تو پھر اکسیر بھی ہے

مجرم عشق ہوں قاتل کا میں اے داور حشر
صاف تو یہ ہے کہ اس میں مری تقصیر بھی ہے

کس قدر صرفہ نگاہوں کا ہوا غیروں میں
کہئے اب آپ کے ترکش میں کوئی تیر بھی ہے

کیوں کیا کرتا ہے تو سمع خراشی ناطقؔ
شعر کہتا ہے تو کچھ شعر میں تاثیر بھی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse