پرتو نور بھی ہے جوہر تنویر بھی ہے

پرتو نور بھی ہے جوہر تنویر بھی ہے
by ناطق لکھنوی
318235پرتو نور بھی ہے جوہر تنویر بھی ہےناطق لکھنوی

پرتو نور بھی ہے جوہر تنویر بھی ہے
آئنہ بھی ہے مرا دل تری تصویر بھی ہے

زہر ہے سب کے لئے زہر محبت لیکن
اگر آ جائے موافق تو پھر اکسیر بھی ہے

مجرم عشق ہوں قاتل کا میں اے داور حشر
صاف تو یہ ہے کہ اس میں مری تقصیر بھی ہے

کس قدر صرفہ نگاہوں کا ہوا غیروں میں
کہئے اب آپ کے ترکش میں کوئی تیر بھی ہے

کیوں کیا کرتا ہے تو سمع خراشی ناطقؔ
شعر کہتا ہے تو کچھ شعر میں تاثیر بھی ہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.