پردہ الٹ کے اس نے جو چہرا دکھا دیا

پردہ الٹ کے اس نے جو چہرا دکھا دیا
by مرزارضا برق

پردہ الٹ کے اس نے جو چہرا دکھا دیا
رنگ رخ بہار گلستاں اڑا دیا

وحشت میں قید دیر و حرم دل سے اٹھ گئی
حقا کہ مجھ کو عشق نے رستا بتا دیا

پھر جھانک تاک آنکھوں نے میری شروع کی
پھر غم کا میرے نالوں نے لگا لگا دیا

انگڑائی دونوں ہاتھ اٹھا کر جو اس نے لی
پر لگ گئے پروں نے پری کو اڑا دیا

سیکھی ہے اس جوان نے پیر فلک کی چال
ہر پھر کے مجھ کو خاک میں آخر ملا دیا

وہ سیر کو جو آئے تو صدقہ میں ان کو برقؔ
ہر ایک گل نے طائر نکہت اڑا دیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse