پردہ اٹھا کے مہر کو رخ کی جھلک دکھا کہ یوں
پردہ اٹھا کے مہر کو رخ کی جھلک دکھا کہ یوں
باغ میں جا کے سرو کو قد کی لچک دکھا کہ یوں
آتش گل چمن کے بیچ جب ہمہ سو ہو شعلہ زن
اپنے لباس سرخ کی اس کو بھڑک دکھا کہ یوں
جو کوئی پوچھے جان من شوخی و جلوہ کس طرح
لمعۂ برق کی طرح ایک جھمک دکھا کہ یوں
شیشے کے بیچ دخت رز کرتی ہے شوخ چشمیاں
تو بھی ٹک اپنی چشم کی اس کو بھڑک دکھا کہ یوں
نظریں ملاوے گر کوئی تجھ سے کبھی تو جان من
اس کے تئیں تو دور سے آنکھیں تنک دکھا کہ یوں
کبک و تدرو گر کریں آگے ترے خرام ناز
اپنے خرام ناز کی ان کو لٹک دکھا کہ یوں
راتوں کو تجھ سے جاگنا گر کوئی پوچھے مصحفیؔ
چشم ستارہ باز ہیں اس کو فلک دکھا کہ یوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |