پردہ رہا کہ جلوۂ وحدت نما ہوا

پردہ رہا کہ جلوۂ وحدت نما ہوا
by ثاقب لکھنوی

پردہ رہا کہ جلوۂ وحدت نما ہوا
غش نے خبر نہ دی مجھے کب سامنا ہوا

دشمن کی دوستی کا نتیجہ برا ہوا
خنجر گلے ملا تو مرا سر جدا ہوا

محشر میں رنگ چہرۂ ظالم ہوا ہوا
سچ ہے برا ہوا کہ مرا سامنا ہوا

گلشن سے اٹھ کے میرا مکاں دل میں آ گیا
اک داغ بن گیا ہے نشیمن جلا ہوا

کیا تیرگی لئے ہوئے آئی شعاع نور
دیکھا شب فراق ازل کا لکھا ہوا

گھر دل میں کر چکا ہے مرا نوحۂ قفس
صیاد قید ہوگا اگر میں رہا ہوا

جب تک تھا میں عروج پہ تھا حسن جاں ستاں
پھر کچھ خبر نہیں کہ مرے بعد کیا ہوا

کہنے کو مشت پر کی اسیری تو تھی مگر
خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا

تو جس میں تھا وہ منزل ہستی میں ہے ضرور
میری فنا سے دل مرا کیوں کر فنا ہوا

نیند ان کی یوں اڑی ہے کہ آتی نہیں کبھی
مرنے کے بعد اب مرا نالہ رسا ہوا

صیاد کا گھر آج ہے جیسے چمن تھا کل
شاید قفس کا بیٹھنے والا رہا ہوا

تصویر میری عمر گزشتہ کی دیکھ جاؤ
تربت پہ اک چراغ ہی وہ بھی بجھا ہوا

اپنے بھی مجھ سے خوش نہ رہے باغ دہر میں
بگڑا کیا مجھی سے نشیمن بنا ہوا

چمکا ہے کچھ وہ جلوۂ رخ ہو کہ داغ عشق
دونوں دلوں میں ایک نہ اک مبتلا ہوا

ڈھونڈے نہ مل سکے مجھے ظلمت میں ماہ و سال
روئے سحر بھی چشمۂ آب بقا ہوا

اک عمر ہو گئی کہ ہے بارش میں چشم تر
اب تک نہ کوئی نخل تمنا ہرا ہوا

ثاقبؔ خبر نہ تھی کہ فلک میں ہیں گردشیں
میں آ کے دانۂ دہن آسیا ہوا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse