پردے اٹھے ہوئے بھی ہیں ان کی ادھر نظر بھی ہے
پردے اٹھے ہوئے بھی ہیں ان کی ادھر نظر بھی ہے
بڑھ کے مقدر آزما سر بھی ہے سنگ در بھی ہے
جل گئی شاخ آشیاں مٹ گیا تیرا گلستاں
بلبل خانماں خراب اب کہیں تیرا گھر بھی ہے
اب نہ وہ شام شام ہے اپنی نہ وہ سحر سحر
ہونے کو یوں تو روز ہی شام بھی ہے سحر بھی ہے
چاہے جسے بنائیے اپنا نشانۂ نظر
زد پہ تمہارے تیر کے دل بھی ہے اور جگر بھی ہے
دن کو اسی سے روشنی شب کو اسی سے چاندنی
سچ تو یہ ہے کہ روئے یار شمس بھی ہے قمر بھی ہے
زلف بہ دوش بے نقاب گھر سے نکل کھڑے ہوئے
اب تو سمجھ گئے حضور نالوں میں کچھ اثر بھی ہے
بیدمؔ خستہ کا مزار آپ تو چل کے دیکھیے
شمع بنا ہے داغ دل بیکسی نوحہ گر بھی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |