پردے پردے میں بہت مجھ پہ ترے وار چلے
پردے پردے میں بہت مجھ پہ ترے وار چلے
صاف اب حلق پہ خنجر چلے تلوار چلے
دورئ منزل مقصد کوئی ہم سے پوچھے
بیٹھے سو بار ہم اس راہ میں سو بار چلے
کون پامال ہوا اس کی بلا دیکھتی ہے
دیکھتا اپنی ہی جو شوخیٔ رفتار چلے
بے پیے چلتا ہے یوں جھوم کے وہ مست شباب
جس طرح پی کے کوئی رند قدح خوار چلے
چشم و ابرو کی یہ سازش جگر و دل کو نوید
ایک کا تیر چلے ایک کی تلوار چلے
کچھ اس انداز سے صیاد نے آزاد کیا
جو چلے چھٹ کے قفس سے وہ گرفتار چلے
جس کو رہنا ہو رہے قیدئ زنداں ہو کر
ہم تو اے ہم نفسو پھاند کے دیوار چلے
پھر مبارکؔ وہی گھنگھور گھٹائیں آئیں
جانب مے کدہ پھر رند قدح خوار چلے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |