پریشاں کیوں نہ ہو جاوے نظارا
پریشاں کیوں نہ ہو جاوے نظارا
اس آرائش نے دل پر نقش مارا
یہ مشاطہ بلائے تازہ لائی
مجعّد کر دیا سر اس کا سارا
ہزاروں چوٹیاں ننھی تھیں اور بال
نہ کیوں تخت اپنا لٹوا دے ہزارا
گداز آہن دلوں کو حسن جب دے
نہ ہووے آب کیوں کر سنگ خارا
کہیں دیکھا ہے اس ہیئت کا معشوق
نظر کیجو مسلماناں! خدا را
بلے اے مصحفیؔ دیگر چہ گویم
ادائے موئے مانی کشت مارا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |