پس قافلہ جو غبار تھا کوئی اس میں ناقہ سوار تھا
پس قافلہ جو غبار تھا کوئی اس میں ناقہ سوار تھا
ابھی گرد باد ہو اڑ گیا وہ عجب طرح کا غبار تھا
میں نگاہ پاک سے دیکھے تھا ترے حسن پاک کو اس پہ بھی
مرے جی میں خواہش وصل تھی مرے دل میں بوس و کنار تھا
دل خستہ پہلو میں رہ گیا مرے سرد ہو کے تو کیا عجب
کہ کسی کی صافیٔ شست کا یہ خدنگ خوردہ شکار تھا
مری بے کسی پہ تری نظر نہ پڑی جب اے بت عشوہ گر
وہ جو تیرا عہد شباب تھا سو وہ عین جوش بہار تھا
میں مزار کو بھی مٹا دیا میں غبار کو بھی اڑا دیا
کہ تری صفائے مزاج پر مری خاک سے بھی غبار تھا
اس ادا سے تیر لگاوے تھا تو بہ روئے تودۂ مشت گل
کہ فلک بہ تیغ و کمان بھی ترا محو کند و کدار تھا
یہ جنوں کی عقدہ کشائیاں کوئی بھولتا ہوں میں مصحفیؔ
کہ بہ روئے ہر سر آبلہ وہی ناخن سر خار تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |