پشت پا ماری بسکہ دنیا پر
پشت پا ماری بسکہ دنیا پر
زخم پڑ پڑ گیا مرے پا پر
ڈوبے اچھلے ہے آفتاب ہنوز
کہیں دیکھا تھا تجھ کو دریا پر
گرو مے ہوں آؤ شیخ شہر
ابر جھوما ہی جاہے صحرا پر
دل پر خوں تو تھا گلابی شراب
جی ہی اپنا چلا نہ صہبا پر
یاں جہاں میں کہ شہر گوراں ہے
سات پردے ہیں چشم بینا پر
فرصت عیش اپنی یوں گزری
کہ مصیبت پڑی تمنا پر
طارم تاک سے لہو ٹپکا
سنگ باراں ہوا ہے مینا پر
میرؔ کیا بات اس کے ہونٹوں کی
جینا دوبھر ہوا مسیحا پر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |