پوشاک سیہ میں رخ جاناں نظر آیا
پوشاک سیہ میں رخ جاناں نظر آیا
شب کو ہمیں خورشید درخشاں نظر آیا
دیکھا نہ کہیں کفر نہ ایماں نظر آیا
ہندو کوئی پایا نہ مسلماں نظر آیا
ملبوس سیہ میں رخ جاناں نظر آیا
ظلمات میں یاں چشمۂ حیواں نظر آیا
بالوں میں چھپا چہرۂ جاناں نظر آیا
پردہ میں یہاں کفر کے ایماں نظر آیا
پھر جوش جنوں سلسلۂ جنباں نظر آیا
پھر بے سر و سامانی کا ساماں نظر آیا
پریاں جسے کاندھے پہ اٹھاتی تھیں ہمیشہ
برباد وہ اورنگ سلیماں نظر آیا
باایں ہمہ وسعت بھی ہے کیا خوان فلک تنگ
آسودہ نہ اس کا کوئی مہماں نظر آیا
آنکھوں کے تلے پھر گیا وہ آہوئے شہری
جنگل میں جو آہوئے بیاباں نظر آیا
مجمع میں رقیبوں کے کھلا تھا ترا جوڑا
کل رات عجب خواب پریشاں نظر آیا
جس دشت میں پھوٹے ہیں مرے آبلہ پا
کوسوں وہی سرسبز نیستاں نظر آیا
تا سال دگر مے کہ خورد زندہ کہ ماند
ماہ رمضان ساقیٔ دوراں نظر آیا
دیوانہ ہوں پر کام میں ہوشیار ہوں اپنے
یوسف کا خیال آیا جو زنداں نظر آیا
شوخ مژۂ برگشتہ کی دیکھی نگہ قہر
آہو بھی مجھے شیر نیستاں نظر آیا
مایوس پھری آتی ہیں کیوں میری دعائیں
کیا باب اجابت پہ بھی درباں نظر آیا
میں زار مہ نو ہوں کہ اس نے مجھے اے مہرؔ
جب غور سے دیکھا تو کہا ہاں نظر آیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |