پوچھو نہ کچھ ثبوت خرد میں نے کیا دیا

پوچھو نہ کچھ ثبوت خرد میں نے کیا دیا (1940)
by علی منظور حیدرآبادی
324667پوچھو نہ کچھ ثبوت خرد میں نے کیا دیا1940علی منظور حیدرآبادی

پوچھو نہ کچھ ثبوت خرد میں نے کیا دیا
ایک مست ناز کو دل بے مدعا دیا

اب کیا گلہ کروں عدم التفات کا
میری نگاہ یاس نے سب کچھ جتا دیا

بڑھتے ہوئے شعور میں گم ہو رہا ہوں میں
احساس حسن آپ نے اتنا بڑھا دیا

دیکھی نہ جب تجلیٔ تکرار آشنا
بے رنگیوں کا رنگ خودی نے جما دیا

ہے شاد بے دلی پہ تہی دست آرزو
اچھا کیا نشان تمنا مٹا دیا

مایوس جلوہ ہائے طرب ہوں خبر نہیں
دل خود ہی بجھ گیا کہ کسی نے بجھا دیا

کیا لطف اضطراب دکھاؤں کہ آپ نے
احساس درد درد سے پہلے مٹا دیا

انجام دید و عید اب اے ہم نشیں نہ پوچھ
وہ مجھ کو یاد ہے مجھے جس نے بھلا دیا

معلوم تھا تجھے کہ وہ درد آشنا نہیں
منظورؔ دل کا درد انہیں بھی سنا دیا


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).