پوچھی نہ خبر کبھی ہماری
پوچھی نہ خبر کبھی ہماری
لی خوب خبر اجی ہماری
ہم لائق بندگی نہیں تو
بس خیر ہے بندگی ہماری
اے دیدۂ نم نہ تھم تو ہرگز
ہے اس میں ہی بہتری ہماری
یاں تیری کمر ہی جب نہ دیکھیں
پھر ہیچ ہے زندگی ہماری
ہم جان چکے کہ جان کے ساتھ
جاوے گی یہ جانکنی ہماری
چلنے کا لیا جو نام تو نے
بس جان ابھی چلی ہماری
بگڑے ہو بھلے بھی بات کہتے
قسمت ہی بری بنی ہماری
اس زلف کے سلسلہ میں ہیں ہم
ہے عمر بہت بڑی ہماری
کیوں کر نہ کٹی زباں تمہاری
ہاں اور کرو بدی ہماری
کہتے ہیں پلٹ گیا وہ رہ سے
تقدیر الٹ گئی ہماری
اب ہنستے ہیں ہم پہ لوگ ورنہ
مشہور تھی یاں ہنسی ہماری
ہم ہٹتے ہیں ملک عشق سے کب
ہیٹی کسی نے کہی ہماری
کیا کام کسی سے ہم کو احسانؔ
ہم اور یہ بے کسی ہماری
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |