پچھلے کو اٹھ کھڑا نہ ہو درد جگر کہیں
پچھلے کو اٹھ کھڑا نہ ہو درد جگر کہیں
پہنچے نہ اڑتے اڑتے کہیں سے خبر کہیں
کیفیت حیات سے خالی ہوا ہے دل
او ساقیٔ ازل مرا پیمانہ بھر کہیں
مر جائیں گے تڑپ کے اسیران بدنصیب
سن پائیں گے جو مژدۂ وحشت اثر کہیں
پھڑکا کیے مرقع عالم کے حسن پر
ٹھہری کبھی نہ اہل ہوس کی نظر کہیں
آخر حجاب و شرم کی حد بھی ہے مہرباں
پردہ الٹ نہ دے مری آہ سحر کہیں
دن وعدۂ وصال کا نزدیک آ چکا
پھر دیر کیا ہے یاسؔ ارے کمبخت مر کہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |