پھر آ گئی اک بت پہ طبیعت کو ہوا کیا
پھر آ گئی اک بت پہ طبیعت کو ہوا کیا
ٹلتی ہی نہیں سر سے مصیبت کو ہوا کیا
محروم پھر آیا در مے خانہ سے واعظ
رندان قدح خوار کی ہمت کو ہوا کیا
مقبول دعا ہو نہ اثر آہ و فغاں میں
اس دور میں تاثیر محبت کو ہوا کیا
اس حسن و لطافت پہ کیا سنگ دل ایسا
حیرت میں ہوں اللہ کی حکمت کو ہوا کیا
جاگے تو کوئی انجمن غیر میں شب بھر
اور چھائی مرے منہ پہ ندامت کو ہوا کیا
دانستہ نقاب الٹے ہوئے ہیں سر بازار
اور اس پہ یہ کہتے ہیں کہ خلقت کو ہوا کیا
لو ہم تو چلے کوثر و تسنیم پہ زاہد
تم یونہی کہے جاؤ کہ رحمت کو ہوا کیا
مائلؔ نہیں کیا اور زمانے میں الٰہی
مجھ پر ہی اترتی ہے یہ آفت کو ہوا کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |