پھر خبر اس فصل میں یارو بہار آنے کی ہے
پھر خبر اس فصل میں یارو بہار آنے کی ہے
اب بجز زنجیر کیا تدبیر دیوانے کی ہے
خاک کر دیوے جلا کر پہلے پھر ٹسوئے بہائے
شمع مجلس میں بڑی دل سوز پروانے کی ہے
بھید زلفوں کا بیاں کرنے میں ہو جاتا ہے گنگ
ورنہ کہنے کو جو پوچھو سو زباں شانے کی ہے
شیخ اس کی چشم کے گوشے سے گوشے ہو کہیں
اس طرف مت جاؤ ناداں راہ مے خانے کی ہے
حوصلہ تنگی کرے ہے شہر کے کوچے ہیں تنگ
اب ہوس دل میں ہمارے سیر ویرانے کی ہے
چاہئے کیا بات کہتے ہو جہاں میں قتل عام
دیر منہ سے اب تمہارے حکم فرمانے کی ہے
جی میں آتا ہے کہ حاتمؔ آج اس کو چھیڑئیے
مدتوں سے دل میں حسرت گالیاں کھانے کی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |