پھر مزاج اس رند کا کیونکر ملے
پھر مزاج اس رند کا کیونکر ملے
جس کو اس کے ہاتھ سے ساغر ملے
یہ بھی ملنا ہے کہ بعد از صد تلاش
حد وہم و فہم سے باہر ملے
کچھ نہ پوچھو کیسی نفرت ہم سے ہے
ہم ہیں جب تک وہ ہمیں کیونکر ملے
میری آنکھیں اور اس کی خاک پا
تیرے کوچے کا اگر رہبر ملے
وصل ہے سر جوش صہبائے فنا
پھر اگر کوئی ملے کیونکر ملے
ملنے کے پہلے فنا ہونا ضرور
پھر فنا جو ہو گیا کیونکر ملے
آسیؔ گریاں ملا محبوب سے
گل سے شبنم جس طرح رو کر ملے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |