پھر ملے ہم ان سے پھر یاری بڑھی
پھر ملے ہم ان سے پھر یاری بڑھی
اور الجھا دل گرفتاری بڑھی
مہربانی چارہ سازوں کی بڑھی
جب بڑھا درماں تو بیماری بڑھی
ہجر کی گھڑیاں کٹھن ہوتی گئیں
دن کے نالے رات کی زاری بڑھی
پھر تصور میں کسی کے نیند اڑی
پھر وہی راتوں کی بے داری بڑھی
سختیاں راہ محبت کی نہ پوچھ
ہر قدم اک تازہ دشواری بڑھی
خیر ساقی کی سلامت مے کدہ
جس قدر پی اتنی ہشیاری بڑھی
دور دورے ہیں مبارکؔ جام کے
انتہا کی اپنی مے خواری بڑھی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |