پھر کیا یہ دھوم ہے کہ جہاں ہے سیہ تمام

پھر کیا یہ دھوم ہے کہ جہاں ہے سیہ تمام
by میر تقی میر
313530پھر کیا یہ دھوم ہے کہ جہاں ہے سیہ تماممیر تقی میر

پھر کیا یہ دھوم ہے کہ جہاں ہے سیہ تمام
پھر کیا یہ ماجرا ہے کہ ہوگئی ہے صبح شام
پھر کیا ہے یہ غبار کہ اٹھتے ہیں دل سے جوش
پھر کیا یہ مجہلہ ہے کہ حیراں ہیں خاص و عام
پھر کیا ہے یہ فتور کہ ہے شور ہر طرف
پھر کیا یہ حشر ہے کہ جہاں میں ہے دھوم دھام
پھر کیا ہے یہ خیال سر دور چرخ میں
جس سے نہیں زمین کے مرکز کا اک مقام
پھر کیسا واقعہ ہے کہ یہ زلزلہ ہے یاں
برہم ہوا سا دیکھتے ہیں دہر کا نظام
کس کا کیا ہے تازہ حوادث نے ایسا خوں
ہر صبح آفتاب پیے ہے لہو کا جام
پہنچا نہیں ہے وعدۂ محشر ابھی مگر
جبریل کہہ کے صل علیٰ جس کا لے ہے نام
زہرا کے دل کا لخت محمدؐ کا نورعین
اسلامیوں کے ظلم سے مارا گیا حسین

کاش اس گھڑی زمیں پہ گرا ہوتا آسماں
کاش اس گھڑی جہاں سے گیا ہوتا یہ جہاں
تھا بال بال اس کا رگ جان مصطفےٰؐ
تر کرتے خوں میں کاشکے حوروں کے گیسواں
جن و ملک تمام کیے ہوتے قتل کاش
چھوڑا نہ ہوتا کاشکے انسان کا نشاں
سیلی نسیم مرگ کی لگتی گلوں کے تیں
غنچہ ہوا ہے آخر موسم کا وہ دہاں
اللہ رے حسین ستم کشتہ کا جگر
فارغ ہوا خدا کے تئیں دے کے امتحاں
یارب جواب داور محشر کہے گا کیا
بولے گا جب کہ حلق بریدہ سے یہ جواں
کیا محشریں اٹھیں گی الٰہی جو حشر کو
ہوگا یہ کشتہ ساتھ محمدؐ کے ہو رواں
روح القدس نہ سامنے ہوگا رسولؐ کے
ہوگا حسین روبرو زہرا ملول کے

سیراب جس کے خوں سے ہے میدان کربلا
سو تشنہ لب موا ہے وہ مہمان کربلا
سینے کے تیں چراتے ہیں سب حاملان عرش
سر کھینچے ہے جب آہ غریبان کربلا
یہ شاہ دیں شہید ہوا ہوگا جس گھڑی
دیوان حشر ہووے گا دیوان کربلا
اے چرخ پیر آل پیمبر ہے سرخ پوش
صلواۃ بر حسین و جوانان کربلا
زہراب تیغ ظلم سروں سے گذر گیا
یک شہر غرق خوں ہے بیابان کربلا
لب تشنگی حسین کو یہ تھی نہ ہو سکا
طوفان نوح قطرۂ طوفان کربلا
روپوش ہو فلک کہ قیامت ہے جس گھڑی
بے پردہ ہوں گی خیمہ نشینان کربلا
کتنے کہ جن کا نام سنے بھیجئے درود
افسوس ہے کہ موے پریشاں کریں نمود

غافل نہ رہ سپہر کہ فتنہ بپا ہوا
نکلا ہے خیمہ شام کو شہ کا جلا ہوا
جس کے طناب تھے رگ جاں جبرئیل کے
سو خیمہ کربلا میں رہا ہے گڑا ہوا
ہے ظلم جا ہے ماتمیان حسین کا
ہر نالہ لامکاں کے پرے تک چلا ہوا
ہے سربرہنہ مویہ کناں بضعۃ الرسول
حیراں ہیں قدسیاں کہ یہ کیا ماجرا ہوا
محمل نشین عترت پیغمبر خدا
ہیں سب شترسوار نمایاں یہ کیا ہوا
کیا چال ہے فلک کہ سر بیکس حسین
اس قافلے سے جا ہے سناں پر جدا ہوا
تحریر اس گھڑی کی فغاں خامے سے نہ ہو
بے سر کی لاش پر جو سر حرف وا ہوا
بے تاب و بے قرار اسیر ستم ملول
فریاد کرکے سارے پکارے کہ یا رسولؐ

بے سر جو یہ بدن ہے تمھارا حسین ہے
بیکس غریب ظلم کا مارا حسین ہے
ناموس خاندان نبوت جو شام کو
لے اپنے سر کے ساتھ سدھارا حسین ہے
اس لشکر شکستہ ستم دیدہ کا تمام
اب جس کی لاش پر ہے گذارا حسین ہے
مردہ پر اس کے آؤ کہ عابد تو ہے اسیر
آخر یہ بے کفن وہی پیارا حسین ہے
صد طعن ہر سخن میں ہیں جن کے سو غیر ہیں
جس کو نہیں ہے بات کا یارا حسین ہے
رہتی تھی جس کی تیری بغل جلوہ گاہ ناز
سو یہ کیے جہاں سے کنارہ حسین ہے
دلجوئی سکینہ میں ہم سب ہیں اہل بیت
پر یہ کرے ہے جس کو اشارہ حسین ہے
سو سر تو اس کا نیزہ پہ ہے دھڑ ہے یوں خراب
کس منھ سے دے وہ ظلم رسیدہ اسے جواب

ہم یا رسولؐ شام کو جاتے ہیں خوار و زار
مارا گیا حسین پھرا ہم سے روزگار
میداں میں تن سے دست و بغل ہورہے ہیں زخم
ہوتی نہیں ہے لاش نبی زادہ یک کنار
جز ابر کون ہے کہ جو رووے حسین پر
نالاں نہیں ہے اس پہ کوئی غیر کوہسار
ہے اب جو یادگار جوانان اہل بیت
ہے بار ذمہ اس کو گلا اپنا طوق دار
یعنی یہ عابدیں کی اسیری و بیکسی
رکھتا نہیں ہے غیر رسن کوئی دستیار
انصاف دادگر تھا یہی ہم سے جو کیا
خاک امام ہی پہ نکالا یہ سب غبار
مایوس ہو یہ کہہ کے اسیران اہل بیت
واں سے ہوئے روانہ جو روتے دلوں کو مار
آندھی چلی کہ تیرہ جہاں ووہیں ہوگیا
اک ابر سامنے سے اٹھا زور رو گیا

دو گام چل کے پھر کیا زہرا کے تیں خطاب
کہہ تشنگی حسین کی دریا کیے کباب
یعنی بتول جیتے جو ہیں سو تو ہیں اسیر
ان جان سے گئے ہوؤں کی مٹی ہے خراب
ہر نالہ خونچکاں تو ہے جنت کو نامہ بر
پر کیا لکھا ہے یہ کہ نہیں پہنچتا جواب
مارا پڑا ہے ساقی کوثر کا نورچشم
سو تشنہ کام ہو کے یہ کہتا تھا آب آب
ہے روز بد کہ نیزے پہ جا ہے سر حسین
اندھیر ہے کہ شام کو جاتا ہے آفتاب
گیسو کہ ریشہ جن کا ترے خون دل میں تھا
ژولیدہ ہیں گے باد پریشاں سے کھا کے تاب
بے آب دشت بیچ تباہی ہے یہ جہاز
طوفاں ہے یہ کہ بیٹھ گئے خیمے جوں حباب
یا بضعۃ الرسول سبھی کی ہے الوداع
ناموس خاندان نبی کی ہے الوداع

یک بار پھر علی کی طرف سب نے کی ندا
عابد انھوں میں خاصۃً کرکے ہائے ہا
بولا کہ جد پاک بیاں تجھ سے کیا کروں
امت نے آگ دی کہ نبیؐ ہی کا گھر جلا
گھر کی خرابی عرض کروں یاکہ اپنا حال
یا وہ کہوں حسین کا پایا جو خوں بہا
یعنی گرانی طوق کی جس سے رکے ہے دم
ہو چاک سینہ کاش کہ آوے تنک ہوا
یہ سن نہاد دہر سے بھڑکی اک آگ تند
ہر یک زبانہ جس کا پرے عرش سے گیا
نوری و ناری آدمی حیوان اور طیر
ان سب کو ایک آن میں بھسمنت کر دیا
آیا ہمارے وہم پریشاں خیال میں
لپٹے ہیں جا کے شعلے بہ دامان کبریا
ہر ایک کو ہے درد جگرسوز یوں نصیب
اللہ کو بھی کہتے ہیں شہ رگ سے ہے قریب

ہم سب ہیں اب تو غربتی دشت خوفناک
ملتی نہیں ہے سر کے اپر ڈالنے کو خاک
کیونکر دکھاویں روضے کو ہم تیرے اپنے دل
اے کاشکے قضا نے کیے ہوتے سینے چاک
وہ گھر کہ جو رہا حرم کبریا کے رشک
دی شامیوں نے آگ گئے شعلے تا سماک
ناموس احمدی کو دیا غیروں نے بباد
تیرا ملاحظہ نہ کیا نے نبیؐ کا باک
یہ اک جوان کشتہ جسے چھوڑ آئے ہم
آلودہ خاک و خون میں جس کا تھا جسم پاک
تھا یہ حسین جس کا محمدؐ تھا نازکش
ناچار آفتاب سے اب اس کو ہے تپاک
دل بھر رہے ہیں دانۂ انگور کی طرح
اس داربست سبز فلک سے لگی ہے تاک
یعنی شتاب قہر الٰہی نزول ہو
روح معاویہ بھی تنک تو ملول ہو

یہ کہہ کے جد پاک سے جو وہ جواں گرا
بے طاقتی سے تپ کی امام زماں گرا
یہ سن کے مضطرب ہوئی روح وصی پاک
صدمے سے جس کے نعرے کے قصر جناں گرا
ماتم کی طرح اور فلک نے نئی رکھی
جب آگے اہل بیت کے وہ ناتواں گرا
اک شور نوحہ رو بہ بیابان پھر ہوا
جس سے ہوا گمان کہ یہ آسماں گرا
ہر اک نے بے قرار ہو یہ شور سے کہا
گرنے کی جا نہ تھی یہ تو عابد کہاں گرا
وحشت عجب طرح کی نمودار ہوگئی
جس وقت خاک رہ پہ وہ جان جہاں گرا
وحشی جو تھے غزال گئے چوکڑی کو بھول
طائر جو قدس کا تھا مع آشیاں گرا
آیا بحال بارے اٹھا دل جلا کر آہ
القصہ شام کی لی چراغ نبی نے راہ

اے چرخ کیا کہوں کہ ستمگار کیا کیا
دیکھا کیا تو خانۂ حیدر جلا کیا
یہ داد تھی کہ قتل کر ابن علی کے تیں
ابن معاویہ کے تئیں بادشا کیا
کس طرح اپنی جاے رہا تو ستم شعار
گردن پہ جب حسین کے خنجر چلا کیا
مسجد میں خون گرنے سے بدتر تھا یہ عمل
سجدہ امام دیں نے لہو میں ادا کیا
کیا کیا دکھایا آنکھ مندے پر حسین نے
باقی رہے ہوؤں پہ ستم ہی رہا کیا
کیا ناخن ہلال سے سر کو کھجائے گا
عقدہ جو اہل بیت کے دل کا نہ وا کیا
ظالم ستم ہے حشر کو حلق بریدہ سے
اس کشتۂ ستم نے اگر کچھ گلہ کیا
بے تابی ایک داور محشر کو آئے گی
تیرے سبب یہ خلق بھی بخشی نہ جائے گی

خاموش میرؔ لب نہ کریں اب سخن سے ساز
چپ رہ خدا کو مان کہیں اے زباں دراز
ہر حرف تیرے منھ سے نکلتا ہے شعلہ زن
سینے میں دوستوں کے ہوا جا ہے دل گداز
کیا ظلم ہے کہ قتل ہوا ہو امام وقت
اور اس کی لاش بے کفن اوپر نہ ہو نماز
خاموش میرؔ شمع رسالت کی بجھ گئی
باد شمال ظلم نے کی صبح ترکتاز
خاموش میرؔ بس یہ جگرسوز غم نہ کہہ
گریہ کے ہم تو لخت جگر کرتے ہیں نیاز
خاموش میرؔ آتش غم ہے زبانہ کش
لگ جائے گا جگر کو کوئی داغ آہ باز
خاموش میرؔ بولنے کی جا نہیں ہے یہ
ویرانے میں پڑا رہا کہتے ہیں گنج راز
خاموش میرؔ کرتی ہے دل چاک تیری بات
صلواۃ بر حسین کہ ہوگی تری نجات


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.