پھر یہ کیسا ادھیڑ بن سا لگا

پھر یہ کیسا ادھیڑ بن سا لگا
by غلام علی ہمدانی مصحفی

پھر یہ کیسا ادھیڑ بن سا لگا
جان غم دیدہ کو جو گھن سا لگا

اس گلی میں جو میں اٹھا گاہے
پائے خوابیدہ مجھ کو سن سا لگا

اس نے جس وقت اور سر کھینچا
نخل قد اس کا سرو بن سا لگا

اس کے چھلے کے ہیں جو گل کھائے
داغ ہر اک بدن پہ ہن سا لگا

آخر عمر اپنی نظروں میں
جامۂ زندگی کہن سا لگا

کشتیٔ چشم تر کھنچی ہے ادھر
ہے جدھر تار اشک گن سا لگا

یار دھرماتما کا پیار کے ساتھ
بوسہ دینا بھی مجھ کو پن سا لگا

جب دل سوختہ پہ زخم مژہ
نظر آیا وہ صاف پن سا لگا

میں سنا مصحفیؔ کو پیری میں
مجھ کو خیلے وہ خوش سخن سا لگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse