پھل آتے ہیں پھول ٹوٹتے ہیں
پھل آتے ہیں پھول ٹوٹتے ہیں
خردوں سے بزرگ چھوٹتے ہیں
کھلتی نہیں گل کی بد مزاجی
غنچے نہیں منہ سے پھوٹتے ہیں
کرتے ہیں یہاں حسیں تاراج
نباش لحد میں لوٹتے ہیں
ہوتا ہے فراق جان و تن میں
بروں کے ملاپ چھوٹتے ہیں
اک بت سے معاملہ درپیش
پتھر سے نصیب پھوٹتے ہیں
آسیب ہیں گیسوان معشوق
کب ہم سے لپٹ کے چھوٹتے ہیں
دل لے کے وہ جان کے ہیں خواہاں
ہر پہر کے مجھی کو لوٹتے ہیں
ہر وقت ہے کوفت اپنے دل کو
رہ رہ کر سینہ کوٹتے ہیں
خط پڑھتا ہے میرا کیا کہوں کون
اغیار کی دید سے پھوٹتے ہیں
رونے دھونے سے فائدہ بحرؔ
کب سینے کے داغ چھوٹتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |