پیام لے کے جو پیغام بر روانہ ہوا
پیام لے کے جو پیغام بر روانہ ہوا
حسد کو حیلہ ملا اشک کو بہانہ ہوا
وہ میری آہ جو شرمندۂ اثر نہ ہوئی
وہ میرا درد جو منت کش دوا نہ ہوا
خیال میں نہ رہیں صورتیں عزیزوں کی
وطن سے چھوٹے ہوئے اس قدر زمانہ ہوا
وہ داغ جس کو جگہ دل میں دی تھی جیتے جی
چراغ بھی تو ہمارے مزار کا نہ ہوا
پری وشوں کو سناتے ہیں قصہ خواں بیخودؔ
ہمارا حال نہ ٹھہرا کوئی فسانہ ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |