پیا کے رخ کی جھلک کا پرتو کیا ہے جھلکار آفتابی
پیا کے رخ کی جھلک کا پرتو کیا ہے جھلکار آفتابی
نظر سوں عالم کے ہو رہی ہے مثال خفاش بے حجابی
جسے وہ چہتا ہے مکھ دکھانے اسی کو ہے تاب دیکھنے کا
وہی سمجھ بخش مرشد ان کا طلب ہے توں مانگ جا شتابی
اگر ملے تجھ کو چشم باطن وہی ہے مقصود عاقبت سے
وگرنہ تحقیق دوجہاں میں نہیں ہے حاصل بجز خرابی
اسی کو کہتے ہیں کور باطن جسے نہیں ہے گا دید اس کا
نہ پاوے گا وہ نجات ہرگز اگرچہ وہ علم ہے کتابی
کریم مرشد نے چشم باطن کیا نوازش علیمؔ کے تئیں
وسا حقیقت کے گھن کا خورشید گئی نکل کر نظر سرابی
This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication. |