پیری میں کیا جوانی کے موسم کو روئیے
پیری میں کیا جوانی کے موسم کو روئیے
اب صبح ہونے آئی ہے اک دم تو سوئیے
رخسار اس کے ہائے رے جب دیکھتے ہیں ہم
آتا ہے جی میں آنکھوں کو ان میں گڑویئے
اخلاص دل سے چاہیے سجدہ نماز میں
بے فائدہ ہے ورنہ جو یوں وقت کھوئیے
کس طور آنسوؤں میں نہاتے ہیں غم کشاں
اس آب گرم میں تو نہ انگلی ڈبوئیے
مطلب کو تو پہنچتے نہیں اندھے کے سے طور
ہم مارتے پھرے ہیں یو نہیں ٹپے ٹویئے
اب جان جسم خاکی سے تنگ آ گئی بہت
کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھویئے
آلودہ اس گلی کی جو ہوں خاک سے تو میرؔ
آب حیات سے بھی نہ وے پاؤں دھوئیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |