پیغام غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا

پیغام غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا
by میر تقی میر
294014پیغام غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچامیر تقی میر

پیغام غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا
نالہ مرا چمن کی دیوار تک نہ پہنچا

اس آئینے کے مانند زنگار جس کو کھاوے
کام اپنا اس کے غم میں دیدار تک نہ پہنچا

جوں نقش پا ہے غربت حیران کار اس کی
آوارہ ہو وطن سے جو یار تک نہ پہنچا

لبریز شکوہ تھے ہم لیکن حضور تیرے
کار شکایت اپنا گفتار تک نہ پہنچا

لے چشم نم رسیدہ پانی چوانے کوئی
وقت اخیر اس کے بیمار تک نہ پہنچا

یہ بخت سبز دیکھو باغ زمانہ میں سے
پژمردہ گل بھی اپنی دستار تک نہ پہنچا

مستوری خوبروئی دونوں نہ جمع ہوویں
خوبی کا کام کس کی اظہار تک نہ پہنچا

یوسف سے لے کے تا گل پھر گل سے لے کے تا‌ شمع
یہ حسن کس کو لے کر بازار تک نہ پہنچا

افسوس میرؔ وے جو ہونے شہید آئے
پھر کام ان کا اس کی تلوار تک نہ پہنچا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.