پیغام غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا
پیغام غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا
نالہ مرا چمن کی دیوار تک نہ پہنچا
اس آئینے کے مانند زنگار جس کو کھاوے
کام اپنا اس کے غم میں دیدار تک نہ پہنچا
جوں نقش پا ہے غربت حیران کار اس کی
آوارہ ہو وطن سے جو یار تک نہ پہنچا
لبریز شکوہ تھے ہم لیکن حضور تیرے
کار شکایت اپنا گفتار تک نہ پہنچا
لے چشم نم رسیدہ پانی چوانے کوئی
وقت اخیر اس کے بیمار تک نہ پہنچا
یہ بخت سبز دیکھو باغ زمانہ میں سے
پژمردہ گل بھی اپنی دستار تک نہ پہنچا
مستوری خوبروئی دونوں نہ جمع ہوویں
خوبی کا کام کس کی اظہار تک نہ پہنچا
یوسف سے لے کے تا گل پھر گل سے لے کے تا شمع
یہ حسن کس کو لے کر بازار تک نہ پہنچا
افسوس میرؔ وے جو ہونے شہید آئے
پھر کام ان کا اس کی تلوار تک نہ پہنچا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |