پی بھی اے مایۂ شباب شراب

پی بھی اے مایۂ شباب شراب
by قلق میرٹھی

پی بھی اے مایۂ شباب شراب
گرم جوشی سے ہے کباب شراب

مریمی اڑ گئی مسیحا کی
لب نازک پہ ہے شراب شراب

اس سے ہم جا بھڑے عدو کے گھر
ہے پڑی خانماں خراب شراب

کیوں کہ مطلق حرام ہی کہیے
پیجئے گا ملا کے آب شراب

بہر ہر ظرف امتحاں ساغر
ہر تمنا کا انتخاب شراب

بعد ازیں محتسب قسم لے لے
توبہ کرتا ہوں لا شتاب شراب

ضائع اوقات کو نہیں کرتے
پیتے ہیں وقت ماہتاب شراب

سخت ماتم ہے اے شباب ترا
کہ رلاتی ہے خون ناب شراب

محتسب اس کا خون ہے کس پر
جو ہے پیتا بجائے آب شراب

مصحف و خرقہ بیچتے ہیں ہم
ہو گئی جان کو عذاب شراب

اس کی بخشش ہے بے حساب اگر
ہم بھی پیتے ہیں بے حساب شراب

ہر گھڑی ذکر مے ہے اے واعظ
ہو گئی تیری تو کتاب شراب

اے قلقؔ مے کدے میں سجدے کیوں
کون دے گا پئے ثواب شراب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse