چاروں طرف ہے شور و فغاں وامصیبتا

چاروں طرف ہے شور و فغاں وامصیبتا
by میر تقی میر
313543چاروں طرف ہے شور و فغاں وامصیبتامیر تقی میر

چاروں طرف ہے شور و فغاں وامصیبتا
ماتم کدہ ہوا ہے جہاں وامصیبتا
مردوں کی جنس سینہ زناں وامصیبتا
نسواں تمام مویہ کناں وامصیبتا

کیا واردات ہے کہ عزا چاروں اور ہے
کیا سانحہ ہوا ہے کہ عالم میں شور ہے
کیسا ہے غم کہ سینہ زنی سب میں زور ہے
ناخن کے چہروں پر ہیں نشاں وامصیبتا

دیکھے ہیں تار و تیرہ زمان و زمن کے تیں
شہری گئے ہیں نعرہ زناں سارے بن کے تیں
مردوں کے ہاتھ پہنچے ہیں جیب و کفن کے تیں
زندہ ہوئے ہیں جامہ دراں وامصیبتا

اندھیر شامیوں کے ستم سے بڑا ہوا
سر ہے سناں پہ شاہ کا تن ہے پڑا ہوا
خورشید ایک نیزے پر آکر کھڑا ہوا
محشر ہوئی جہاں میں عیاں وامصیبتا

کیا دل میں حسرتیں لیے یاں سے گیا امام
قاسم کا کام کیونکے ہوا دفعتہ تمام
کس منھ سے کوئی اصغر ناداں کا لیوے نام
اکبر گیا ہے کیسا جواں وامصیبتا

ناگاہ اس چمن میں چلی ایسی باد سخت
جڑ پیڑ سے اکھاڑ دیے جن نے سب درخت
نوباوگاں نے بار کیا ہے سفر کا رخت
غنچہ ہوئے گلوں کے دہاں وامصیبتا

آکر وطن سے ابن علی جان سے گیا
اہل حرم پھرے ہیں بیاباں میں بے ردا
عابد چلا ہے ہاتھ بندھے وا محمداؐ
زینب ہے سر پہ خاک فشاں وامصیبتا

بے چارے ہیں غریب ہیں بے خانماں ہیں سب
بے وارث اور بیکس و بے مہرباں ہیں سب
ہر گام گرم نالہ و آہ و فغاں ہیں سب
نے گھر نہ در نہ جا نہ مکاں وامصیبتا

مرتے حسین کے وہ زمانہ نہیں رہا
جو ہے سو مدعی ہے یگانہ نہیں رہا
ناموس احمدی کو ٹھکانا نہیں رہا
فریاد لے کے جائیں کہاں وامصیبتا

بے سر پڑے ہیں حدنظر تک تمام تن
کھینچے ہیں خاک و خوں میں جوانوں کے پیرہن
سب خارزار ریختن خوں سے ہے چمن
کچھ اور ہوگیا ہے سماں وامصیبتا

زہرا نے دودھ جس کے تئیں مہر سے دیا
حیدر نے جس کو سر پہ رکھا جب تلک جیا
آغوش میں نبیؐ نے جسے پرورش کیا
سر اس کا اور نوک سناں وامصیبتا

جس کے لیے سپہر رہا برسوں چرخ زن
جس کے سبب نمود میں آیا زمیں زمن
سو سر کہیں نواسے کا اس کے کہیں بدن
پھر خاک میں ہوا نہ نہاں وامصیبتا

بھائی بھتیجے آگئے تیغ ستم تلے
خنجر رکھا گیا شہ مظلوم کے گلے
ہرچند سر ہے نیزے پہ خورشید سا ولے
تاریک ہے زمین و زماں وامصیبتا

بیٹا جو اک رہا ہے بہت ناتواں ہے وہ
کرتا تو ہے نمود سی لیکن کہاں ہے وہ
دبلے پنے سے جسم کے اپنے بجاں ہے وہ
تس پر کہیں ہیں چل تو دواں وامصیبتا

ہاتھوں سے اس کے کچھ نہیں بن آتی کیا کرے
ناموس چھوڑ دشت میں کس طرح سے مرے
جیتا رہے تو ضعف میں کیوں کر یہ دکھ بھرے
گردن میں طوق ایک گراں وامصیبتا

کہتے ہیں اس پہ باپ کا منھ سے نہ نام لے
باندھے ہیں ہاتھ دل کے تئیں تانہ تھام لے
کس طرح اس سلوک کا وہ انتقام لے
اس کو نہ زور کچھ نہ تواں وامصیبتا

دیکھے ہے ماں بہن کو تو روتا ہے زار زار
رسی سے ہاتھ دونوں بندھے کف میں اک مہار
گرد یتیمی منھ پہ جگر بے پدر فگار
ناچار ساتھ سب کے رواں وامصیبتا

اس واقعے سے بانو پہ سختی کمال ہے
یہ ظلم یہ ستم یہ خرابی حال ہے
لب پر ہزار رنگ گلے لیک لال ہے
گویا نہیں ہے منھ میں زباں وامصیبتا

اس ایک کے لبوں پہ شکایت ہے خونچکاں
اس دوسری کے نوحے سے پرشور ہے جہاں
القصہ بے حسین قیامت ہے درمیاں
کیا کیا کریں ہیں بہنیں بیاں وامصیبتا

بیٹی یہی کہے ہے کہ بابا کب آئے گا
کب کا گیا ہے کب تئیں تشریف لائے گا
شاید یہ حرف جان ہی کے ساتھ جائے گا
کڑھنے سے اس کے ہے یہ عیاں وامصیبتا

وحشی ہی فرط غم سے نہیں دشت میں اداس
جاتے نہیں طیور بھی میرؔ آشیاں کے پاس
کیا مرد و زن ہر ایک کے مفقود ہیں حواس
ماتم زدہ ہیں خرد و کلاں وامصیبتا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.