چاند سا چہرہ جو اس کا آشکارا ہو گیا
چاند سا چہرہ جو اس کا آشکارا ہو گیا
تن پہ ہر قطرہ پسینہ کا شرارا ہو گیا
چھپ سکا دم بھر نہ راز دل فراق یار میں
وہ نہاں جس دم ہوا سب آشکارا ہو گیا
جس کو دیکھا چشم وحدت سے وہی معشوق ہے
پڑ گئی جس پر نظر اس کا نظارا ہو گیا
ہم کناری کی ہوس اے گوہر یکتا یہ ہے
آب ہو کر غم سے دل دریا ہمارا ہو گیا
خلق میں گرد یتیمی سے گہر کی قدر ہے
خاکساری سے فزوں رتبہ ہمارا ہو گیا
دل میں ہے اے برقؔ اس بت کے در دنداں کی یاد
یہ گہر عرش بریں کا گوشوارہ ہو گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |