چاک جگر و دل کا جب شکوہ بجا ہوتا
چاک جگر و دل کا جب شکوہ بجا ہوتا
یوسف کا زلیخا نے دامن تو سیا ہوتا
سہتا ہوں ستم اس کے احسان ہے دنیا پر
گر میں نہ وفا کرتا کیا جانیے کیا ہوتا
تم اور عدو دونوں اک جان دو قالب ہو
میں تم سے اگر ملتا وہ کیوں کہ جدا ہوتا
محرومیٔ طالع سے ہوگا نہ یہ دن ورنہ
میں تم کو دکھا دیتا گر روز جزا ہوتا
یاں ترک وفا مشکل تم کیوں کہ ستم چھوڑو
جو کچھ نہ ہوا مجھ سے وہ آپ سے کیا ہوتا
اے کاش تم آ جاتے اغیار ہی کو لے کر
کچھ عمر تو گھٹ جاتی گو رنج سوا ہوتا
کرتے ہیں وہ چار آنکھیں یوں مل کے قیامت میں
گویا کہ ہے فردا کا اب وعدہ وفا ہوتا
دھوکے میں نہ رہنا تھا یکبار نہ کہنا تھا
کچھ لب پہ گلا لاتے کچھ دل میں رکھا ہوتا
ہوتی ہے شب وعدہ جب یاس تو میں دل سے
ناچار یہ کہتا ہوں وہ آتے تو کیا ہوتا
مے خانے سے مے سالکؔ پیتے ہوئے گھر جانا
بازار ہے یہ حضرت کچھ پاس کیا ہوتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |