چاہئے پرہیز گردش چشم شوخ یار کو

چاہئے پرہیز گردش چشم شوخ یار کو (1934)
by ابراہیم عاجز
324626چاہئے پرہیز گردش چشم شوخ یار کو1934ابراہیم عاجز

چاہئے پرہیز گردش چشم شوخ یار کو
گھومنے سے جب زیاں ہے مردم بیمار کو

ہوں مریض عشق ہے یہ درد میرا لا دوا
ہوگی صحت کیا مسیحا سے ترے بیمار کو

ناوک بے پر اگر ہے اس کی مژگان دراز
قوس کیوں سمجھے نہ عاشق ابروئے خم دار کو

میری ہی نفرت نے کی الفت رقیبوں سے سوا
وصل کی دولت میسر کیوں نہ ہو اغیار کو

شام غربت ہجر میں تو وصل میں صبح وطن
دیکھتا ہوں اپنے گھر میں سایۂ دیوار کو

کیا قیامت ہے درازیٔ شب یلدائے ہجر
روز محشر پر جو رکھا وعدۂ دیدار کو

ایک درہم کی اسے خواہش تو لاکھوں کی اسے
شکر مفلس سے زیادہ ہے کہیں زردار کو

نقد جاں دے کر زلیخا نے لیا سودائے عشق
حسن یوسف کی جو دیکھا گرمئ بازار کو

ابن آدم سے بھی چھینی عشق ہی نے سلطنت
کر دیا محتاج اسی نے مالک دینار کو

اس زمانے میں بڑی ہوتی ہے زرداروں کی قدر
پوچھتا ہے کون عاجزؔ مفلس نادار کو


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).