چاہئے پرہیز گردش چشم شوخ یار کو
چاہئے پرہیز گردش چشم شوخ یار کو
گھومنے سے جب زیاں ہے مردم بیمار کو
ہوں مریض عشق ہے یہ درد میرا لا دوا
ہوگی صحت کیا مسیحا سے ترے بیمار کو
ناوک بے پر اگر ہے اس کی مژگان دراز
قوس کیوں سمجھے نہ عاشق ابروئے خم دار کو
میری ہی نفرت نے کی الفت رقیبوں سے سوا
وصل کی دولت میسر کیوں نہ ہو اغیار کو
شام غربت ہجر میں تو وصل میں صبح وطن
دیکھتا ہوں اپنے گھر میں سایۂ دیوار کو
کیا قیامت ہے درازیٔ شب یلدائے ہجر
روز محشر پر جو رکھا وعدۂ دیدار کو
ایک درہم کی اسے خواہش تو لاکھوں کی اسے
شکر مفلس سے زیادہ ہے کہیں زردار کو
نقد جاں دے کر زلیخا نے لیا سودائے عشق
حسن یوسف کی جو دیکھا گرمئ بازار کو
ابن آدم سے بھی چھینی عشق ہی نے سلطنت
کر دیا محتاج اسی نے مالک دینار کو
اس زمانے میں بڑی ہوتی ہے زرداروں کی قدر
پوچھتا ہے کون عاجزؔ مفلس نادار کو
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |