چاہت کی نظر آپ سے ڈالی بھی گئی ہے
چاہت کی نظر آپ سے ڈالی بھی گئی ہے
حسرت کسی عاشق کی نکالی بھی گئی ہے
تم نے کسی بیمار کو اچھا بھی کیا ہے
حالت کسی بگڑے کی سنبھالی بھی گئی ہے
تم کھیل سمجھتے ہو مگر یہ تو بتاؤ
آہ دل مضطر کبھی خالی بھی گئی ہے
کیا خاک کروں میں خلش عشق کا شکوہ
یہ پھانس کبھی تم سے نکالی بھی گئی ہے
جھگڑے بھی کہیں رشک رقابت کے مٹے ہیں
الفت میں کبھی خام خیالی بھی گئی ہے
مضطرؔ کو کبھی حسن کا صدقہ بھی دیا ہے
یہ بھیک کبھی آپ سے ڈالی بھی گئی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |