چاہ کر ہم اس پری رو کو جو دیوانے ہوئے
چاہ کر ہم اس پری رو کو جو دیوانے ہوئے
دوست دشمن ہو گئے اور اپنے بیگانے ہوئے
پھر نئے سر سے یہ جی میں ہے کہ دل کو ڈھونڈیئے
خاک کوچے کی ترے مدت ہوئی چھانے ہوئے
تھا جہاں مے خانہ برپا اس جگہ مسجد بنی
ٹوٹ کر مسجد کو پھر دیکھا تو بت خانے ہوئے
ہے یہ دنیا جائے عبرت خاک سے انسان کی
بن گئے کتنے سبو کتنے ہی پیمانے ہوئے
عقل و ہوش اپنے کا رنگیںؔ ہو گیا سب اور رنگ
کشور دل میں جب آ کر عشق کے تھانے ہوئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |