چتون جو قہر کی ہے تو تیور جلال کے

چتون جو قہر کی ہے تو تیور جلال کے
by مبارک عظیم آبادی

چتون جو قہر کی ہے تو تیور جلال کے
مطلب یہ ہے کہ رکھ دے کلیجہ نکال کے

واعظ سے بحث بادہ و پیمانہ کیا کروں
کچھ لوگ رہ گئے ہیں پرانے خیال کے

سو داغ جن کے لائے ہیں زیر مزار ہم
احساں جتا رہے ہیں وہ دو پھول ڈال کے

پھر ڈھونڈھتا ہے دل خلش خار آرزو
پچھتا رہا ہوں دل سے یہ کانٹا نکال کے

یہ غم کدہ ہے اس میں مبارکؔ خوشی کہاں
غم کو خوشی بنا کوئی پہلو نکال کے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse