چراغ زیست بجھا دل سے اک دھواں نکلا

چراغ زیست بجھا دل سے اک دھواں نکلا
by یاس یگانہ چنگیزی
318425چراغ زیست بجھا دل سے اک دھواں نکلایاس یگانہ چنگیزی

چراغ زیست بجھا دل سے اک دھواں نکلا
لگا کے آگ مرے گھر سے میہماں نکلا

دل اپنا خاک تھا پھر خاک کو جلانا کیا
نہ کوئی شعلہ اٹھا اور نہ کچھ دھواں نکلا

سنیں گے چھیڑ کے افسانۂ دل مرحوم
ادھر سے ملک عدم کا جو کارواں نکلا

تڑپ کے آبلہ پا اٹھ کھڑے ہوئے آخر
تلاش یار میں جب کوئی کارواں نکلا

لہو لگا کے شہیدوں میں ہو گئے داخل
ہوس تو نکلی مگر حوصلہ کہاں نکلا

حریم ناز میں شاید کسی کو دخل نہیں
دل عزیز بھی نا خواندہ میہماں نکلا

نہاں تھا خانۂ دل میں ہی شاہد مقصود
جو بے نشاں تھا وہ دیوار درمیاں نکلا

ہے فن عشق کا استاد بس دل وحشی
مریض غم کا یہی اک مزاج داں نکلا

لگا ہے دل کو اب انجام کار کا کھٹکا
بہار گل سے بھی اک پہلوئے خزاں نکلا

زمانہ پھر گیا چلنے لگی ہوا الٹی
چمن کو آگ لگا کر جو باغباں نکلا

ہمارے صبر کی کھاتے ہیں اب قسم اغیار
جفا کشی کا مزہ بعد امتحاں نکلا

خوشی سے ہو گئے بد خواہ میرے شادیٔ مرگ
کفن پہن کے جو میں گھر سے ناگہاں نکلا

اجل سے بڑھ کے محافظ نہیں کوئی اپنا
خدا کی شان کہ دشمن نگاہ باں نکلا

دکھایا گور سکندر نے بڑھ کے آئینہ
جو سر اٹھا کے کوئی زیر آسماں نکلا

لحد سے بڑھ کے نہیں کوئی گوشۂ راحت
قیامت آئی جو اس گھر سے میہماں نکلا

اب اپنی روح ہے اور سیر عالم بالا
کنویں سے یوسف گم کردہ کارواں نکلا

کلام یاسؔ سے دنیا میں پھر اک آگ لگی
یہ کون حضرت آتشؔ کا ہم زباں نکلا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.