چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں

چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں
by اکبر الہ آبادی

چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں
آرزو میں نے کوئی کی ہی نہیں

مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں

چاہتا تھا بہت سی باتوں کو
مگر افسوس اب وہ جی ہی نہیں

جرأت عرض حال کیا ہوتی
نظر لطف اس نے کی ہی نہیں

اس مصیبت میں دل سے کیا کہتا
کوئی ایسی مثال تھی ہی نہیں

آپ کیا جانیں قدر یا اللہ
جب مصیبت کوئی پڑی ہی نہیں

شرک چھوڑا تو سب نے چھوڑ دیا
میری کوئی سوسائٹی ہی نہیں

پوچھا اکبرؔ ہے آدمی کیسا
ہنس کے بولے وہ آدمی ہی نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse