چشم ظاہر سے رخ یار کا پردہ دیکھا
چشم ظاہر سے رخ یار کا پردہ دیکھا
آنکھیں جب پھوٹ گئیں تب یہ تماشا دیکھا
دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے تمہیں کیسا چاہا
پوچھنا یہ ہے کہ تم نے ہمیں کیسا دیکھا
پھر جلاؤ گے کبھی طالب دیدار کا خط
سیکڑوں آنکھوں سے اس نے تمہیں دیکھا دیکھا
کان وہ کان ہے جس نے تری آواز سنی
آنکھ وہ آنکھ ہے جس نے ترا جلوہ دیکھا
آپ کہتے ہیں کہ جا دیکھ لیا دل تیرا
کہیے تو اپنے سوا دل میں مرے کیا دیکھا
تم خبر بھی نہ ہوئے خانہ بدوشوں سے کبھی
ہم نے گھر پھونک دیا سب نے تماشا دیکھا
جن سے ہوں سوختہ جانوں کے کلیجے ٹھنڈے
انہیں جلووں سے حسنؔ طور کو جلتا دیکھا
This work was published before January 1, 1930, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |