چشم مے گوں وہاں شراب لذیذ
چشم مے گوں وہاں شراب لذیذ
دل سوزاں یہاں کباب لذیذ
لب شیریں کے بوسے پائے ہیں
ہم نے دیکھا ہے آج خواب لذیذ
دہن زخم ہونٹھ چاٹتے ہیں
اس کی تلوار میں ہے آب لذیذ
کہاں تلخی کہاں یہ میٹھا پن
اس عرق سے ہے کب گلاب لذیذ
اس کے سیب ذقن کے عاشق ہیں
ہوگا محشر کے دن حساب لذیذ
میٹھی باتوں میں وصل کا انکار
ہے نئے طرح کا جواب لذیذ
کیسے شانے کے دانت پڑتے ہیں
ہے جو وہ زلف مشک ناب لذیذ
ترشیاں کس مزے مزے کی ہیں
ہے ہمیں یار کا شباب لذیذ
مر نہ جائے صنم مریض ہجر
شربت وصل دے شتاب لذیذ
ہو سکے گا نہ وصف سیب ذقن
اے سخیؔ ہے یہ بے حساب لذیذ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |