چشم نے کی گوہر افشانی صریح
چشم نے کی گوہر افشانی صریح
ہو گئی یہ ہم سے نادانی صریح
منہ چھپا قاتل کہ تیری ہی طرف
تک رہی ہے چشم قربانی صریح
کربلائے عشق میں عشاق کی
تیغ و خنجر پر ہے مہمانی صریح
آئینے میں بھی نہیں پڑتا ہے عکس
ہے تری تصویر لا ثانی صریح
ژالہ ساں کیوں کر گھلے جاویں نہ ہم
ہے جو آنسو میں پریشانی صریح
کیونکہ استقلال کا دم ماریں ہم
استخواں اپنے تو ہیں پانی صریح
مزرع دل کس طرح سرسبز ہو
برق یاں کرتی ہے جولانی صریح
ماہ نو ہے کس کے در کا سجدہ پاش
رک گئی ہے اس کی پیشانی صریح
مصحفیؔ دم توڑے ہے مرتا نہیں
کر رہا ہے یہ گراں جانی صریح
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |