چلا جاتا ہے کاروان نفس
چلا جاتا ہے کاروان نفس
نہ بانگ درا ہے نہ صوت جرس
برس کتنے گزرے یہ کہتے ہوئے
کہ کچھ کام کر لیں گے اب کے برس
نہ وہ پوچھتے ہیں نہ کہتا ہوں میں
رہی جاتی ہے دل کی دل میں ہوس
وہ حسرت زدہ صید میں ہی تو ہوں
ہے پرواز جس کی دردن ہوس
ستم ہیں یہ وحشتؔ تری غفلتیں
تجھے کاش ہوتا شمار نفس
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |