چلا ہے او دل راحت طلب کیا شادماں ہو کر

چلا ہے او دل راحت طلب کیا شادماں ہو کر
by خواجہ محمد وزیر

چلا ہے او دل راحت طلب کیا شادماں ہو کر
زمین کوئے جاناں رنج دے گی آسماں ہو کر

کیا ویراں چمن کو آئے ہو کیا بوستاں ہو کر
ہوئے گل پانی پانی یہ چلی آب رواں ہو کر

اسی خاطر تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر

جواب نامہ کیا لایا تن بے جاں میں جان آئی
گیا یاں سے کبوتر واں سے آیا مرغ جاں ہو کر

غضب ہے روح سے اس جامۂ تن کا جدا ہونا
لباس تنگ ہے اترے گا آخر دھجیاں ہو کر

اگر آہستہ بولوں ناتوانی کہتی ہے بس بس
صدائے جنبش لب دیتے ہی صدمے فغاں ہو کر

ازار آتشیں خط سیہ اک دن نکالے گا
رلائے گا یہ شعلہ میری آنکھوں کا دھواں ہو کر

مکدر ہو اگر لو مجھ کو گاڑو اس طرف دیکھو
کہ زیر خاک ہوں گرد نگہ سے ناتواں ہو کر

کیا غیروں کو قتل اس نے موے ہم رشک کے مارے
اجل بھی دوستو آئی نصیب دشمناں ہو کر

پھرا صد چاک ہو کر کوچۂ کاکل سے دل اپنا
عزیزو یوسف گم گشتہ آیا کارواں ہو کر

کمان ابرو کی ایسے نرم ہے آئے گا جو ناوک
رہے گا استخواں میں اپنے مغز استخواں ہو کر

چھڑائی چوس کر ہم نے مسی تو کیا ہے شرمایا
لب اس محجوب کا چھپنے لگا منہ میں زباں ہو کر

فلک میری طرح آخر تجھے بھی پیس ڈالے گا
اڑے گا اے ہما اک روز گرد استخواں ہو کر

ہما سے ہے کڑا پن اے سگ جاناں جو تو کھائے
ملائم استخواں ہو جائیں مغز استخواں ہو کر

جہاں جو چاہئے ویسی ہی وہ دکھلائے نیرنگی
بصر آنکھوں میں گویائی زباں میں دل میں جاں ہو کر

ستم کر اس کے یہ دیکھے تو خوں ریزی پہ مائل ہو
کرے سنگ ملامت تیز خنجر کو فساں ہو کر

نہانے میں جو لہراتی ہے زلف یار دریا میں
تڑپنے لگتی ہیں پانی پہ موجیں مچھلیاں ہو کر

اداسی جھک کے ملتے ہو نگہ سے قتل کرتے ہو
ستم ایجاد ہو ناوک لگاتے ہو کماں ہو کر

اٹھائے گی جو ہم کو وحشت دل یار کے در سے
گریں گے پائزی پاؤں پہ اپنے بیڑیاں ہو کر

کہا جو اس نے چاہا ضعف سے یاں لب نہیں ملتے
سبک کر دیتی ہیں حرف سخن بار گراں ہو کر

اثر باقی رہا بل بے شب فرقت کی تاریکی
چراغ روز سے شعلہ نکل آیا دھواں ہو کر

خط نوخیز میں عارض جو تیرے چھپتے جاتے ہیں
پری بن جائیں گے اس سبز شیشے میں نہاں ہو کر

گرا قدموں پہ صید ناتواں تھا ہاتھ سے چھٹ کر
جگہ دے اب تو نقش پاے صیاد آشیاں ہو کر

ترے وحشی کو برسوں اے پری کب نیند آتی ہے
اگر خواب گراں آیا بھی تو سنگ گراں ہو کر

وزیرؔ اس کا ہوں میں شاگرد جس کو کہتے ہیں منصف
لیا ملک معانی بادشاہ شاعراں ہو کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse