چلے لے کے سر پر گناہوں کی گٹھری
چلے لے کے سر پر گناہوں کی گٹھری
سفر میں یہ ہے رو سیاہوں کی گٹھری
پڑی روز محشر وہیں برق آ کر
جہاں تھی ترے دادخواہوں کی گٹھری
مسافر میں اس دشت کا ہوں کہ جس میں
لٹی کتنے گم کردہ راہوں کی گٹھری
جہاں سوس نے بحر سے سر نکالا
میں سمجھا ہے کشتی تباہوں کی گٹھری
کلاہ زری ماہ نو نے اڑا لی
کھلی تھی کہیں کج کلاہوں کی گٹھری
ہم ان سرقہ والوں میں اے مصحفیؔ ہیں
چراتے ہیں جو بادشاہوں کی گٹھری
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |