چل نہیں سکتے وہاں ذہن رسا کے جوڑ توڑ

چل نہیں سکتے وہاں ذہن رسا کے جوڑ توڑ (1900)
by حبیب موسوی
324730چل نہیں سکتے وہاں ذہن رسا کے جوڑ توڑ1900حبیب موسوی

چل نہیں سکتے وہاں ذہن رسا کے جوڑ توڑ
ان کی چالیں ہیں قیامت کی بلا کے جوڑ توڑ

ہے نظر انداز کوئی کوئی منظور نظر
دیکھنا اس بت کی چشم فتنہ زا کے جوڑ توڑ

کج ادائی بات ہے جس کی لگاوٹ کھیل ہے
سیکھ لے اس فتنہ گر سے کوئی آ کے جوڑ توڑ

پا کے قابو کرتے ہیں اہل غرض کیا داؤں گھات
چلتے ہیں مطلب کی چالیں مدعا کے جوڑ توڑ

دوست بن کر کرتے ہیں نیکی کے پردے میں بدی
راج نیت یہ ہے دیکھو اغنیا کے جوڑ توڑ

سختیاں استاد ہیں انساں کی دنیا میں حبیبؔ
کرتے ہیں مغلوب کو غالب سکھا کے جوڑ توڑ


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.